نور کے لغوی معنی ہیں روشنی

نور کے لغوی معنی ہیں روشنی۔ چمک دمک اور اجالامگر کبھی اس کو بھی نور کہہ دیا جاتا ہے جس سے روشنی اور اجالا نمودار ہو۔ اس معنی میں سورج کو نور کہا جاتا ہے بجلی۔ چراغ۔ لالٹین کو نور یا روشنی کہہ دیتے ہیں یعنی مسبب بول کر سبب مراد لیتے ہیں۔
نور دو طرح کا ہوتا ہے: نورِحسی اور نورِعقلی۔ نورِحسی وہ جو آنکھوں سے دیکھنے میں آئے جیسے دھوپ، چراغ وغیرہ کی روشنی۔ نورِعقلی جس کو آنکھ تو محسوس نہ کرسکے مگر عقل کہے کہ یہ نور ہے،روشنی ہے۔
اس معنی سے اسلام کو،قرآن کو، ہدایت کو،علم کو نور کہا جاتا ہے۔
آیات ملاحظہ ہوں:
اﷲ ولی الذین آمنوا یخرجھم من الظلمت الی النور۔
ترجمہ: اﷲ مدد گار ہے مومنوں کا انہیں اندھیروں سے روشنی کی طرف نکالتا ہے۔
اس آیت میں گمراہی کو اندھیری اور ہدایت کو روشنی اور نور فرمایا گیا ہے۔
وانزلنا الیکم نوراً مبیناً۔
ترجمہ: اور ہم نے تمہاری طرف کھلی روشنی اتاری۔
اس آیت میں قرآن کو نور فرمایا گیا۔
مثل نورہ کمشکوۃ فیھا مصباح۔ (پارہ ۱۸ سورہ ۲۴ آیت نمبر ۳۵)
ترجمہ: رب کے نور کی مثال اس طاق کی طرح سے جس میں چراغ ہو۔
اس آیت میں رب نے اپنی ذات کو یا اپنے حبیب ﷺ کو نور فرمایا: ومن کان میتا فاحییناہ وجعلنا لہ نوراً یمشی بہ فی الناس۔
ترجمہ: تو کیا وہ جو مردہ تھا۔ پھر ہم نے اسے زندگی بخشی اور اس کے لیے نور بنایا جس سے وہ لوگوں میں چلتا ہے۔
افمن شرح اﷲ صدرہ للاسلام فھو علی نور من ربہ۔
ترجمہ: تو کیا وہ شخص جس کا سینہ ہم نے اسلام کے لئے کھول دیا ہے پس وہ اپنے رب کی طرف سے نور پر ہے۔
ربنا اتمم لنا نورنا واغفرلنا۔
ترجمہ: اے رب ہمارے ہمارا نور پورا فرما اور ہماری مغفرت فرما۔
وانزلنا التورٰۃ فیہ ھدی ونور۔
ترجمہ: اور ہم نے توریت اتاری جس میں ہدایت اور نور ہے۔
رب تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
قد جآء کم من اﷲ نور و کتاب مبین۔ (سورہ مائدہ پارہ ۶ آیت نمبر ۱۵)
ترجمہ: بے شک تمہارے پاس اﷲ کی طرف سے نور آیا اور روشن کتاب۔
مثل نورہ کمشکوۃ فیھا مصباح المصباح کالزجاجۃ والزجاجۃ کانھا کوکب دری۔
ترجمہ: رب کے نور یعنی (محمدﷺ) کی مثال ایسی ہے جیسے ایک طاق جس میں چراغ ہے۔ وہ چراغ ایک فانوس میں ہے وہ چراغ ایک فانوس میں ہے وہ فانوس گویا ایک چمکتا ہو اتارا ہے۔(پارہ ۱۸ سورہ ۲۴ آیت نمبر ۳۵)
یا ایھا النبی انا ارسلنک شاھداً ومبشراً ونذیراً و داعیاً الی اﷲ باذنہ وسراجاً منیراً۔
ترجمہ: اے نبی! بے شک ہم نے تم کو بھیجا حاضر ناظر اور خوشخبری دیتا اور ڈرسناتا اور اﷲ کی طرف اس کے حکم سے بلانے والا اور چمکانے والا سورج۔ (سورہ الاحزاب پارہ ۲۲ آیت نمبر ۴۶)
یریدون لیطفؤا نور اﷲ بافواھھم واﷲ متم نورہ ولو کرہ الکافرون۔
ترجمہ: کفار چاہتے ہیں کہ اﷲ کے نور (بنی ﷺ) کو بجھادیں اور اﷲ اپنے نور کو پورا فرمانے والا ہے۔ اگرچہ کفار ناپسند کریں۔ (سورہ صف پارہ ۲۸)
یریدون ان یطفؤا نور اﷲ بافواھم ویابی اﷲ ان یتم نورہ۔
ترجمہ: کفار یہ چاہتے ہیں کہ اﷲ کے نور (محمد ﷺ) کو اپنے منہ سے بجھادیں اور اﷲ نہ مانے گا مگر اپنے نور کا پورا کرنا۔ (سورہ توبہ پارہ ۱۰)
تفسیر جلالین شریف میں” قدجآء کم من اﷲ نور و کتاب مبین‘‘ کے تحت فرمایا:
ھو نور النبی (تفسیر جلالین)
نور سے مراد نور محمد ﷺ۔
تفسیر صاوی شریف میں اس آیت کے ما تحت ہے:قولہ ھو النبی ای سمی نور لانہ ینور البصائر ویھدیھا الرشاد ولانہ اصل کل نور حسی ومعنوی۔ (تفسیر صاوی حاشیہ جلالین)
رب نے اس آیت میں حضورﷺ کو نور اس لئے فرمایا کہ حضورﷺ بصارتوں کو نورانی کرتے ہیں اور کامیابی کی طرف ہدایت دیتے ہیں اور حضورﷺ ہر حسی اور معنوی نور کی اصل ہیں۔
تفسیر خازن میں اسی آیت کے ماتحت ہے:قد جاء کم من اﷲ نور یعنی محمد ا انما سماہ اﷲ نوراً لانہ یھتدی بہ کما یھتدی فی الظلام بالنور۔
یعنی اس آیت میں نور محمد ﷺ ہیں رب نے انہیں نور اس لئے فرمایا کہ حضور سے ہدایت حاصل کی جاتی ہے جیسے کہ اندھیری میں نور سے ہدایت لی جاتی ہے۔ (تفسیر خازن)
تفسیر بیضاوی میں اس آیت کے ما تحت ہے:وقیل یرید بالنور محمد ا۔
مفسرین کا ایک قول یہ بھی ہے کہ یہاں نور سے مراد محمد ﷺ ہیں۔ (تفسیر بیضاوی)
تفسیر مدارک میں اسی آیت کے ما تحت ہے:او النور محمد ا لانہ یھتدی بہ کما سمی سراجا۔ (تفسیر مدارک التنزیل)
نور سے مراد محمد مصطفی ﷺ ہیں اس لیے کہ حضور سے ہدایت ملتی ہے جیسے کہ رب نے انہیں سورج فرمایا۔
تفسیر ابن عباس تنویر المقیاس میں اسی آیت کے ما تحت ہے:قد جاء کم من اﷲ نور رسول اﷲ یعنی محمد۔
بے شک تمہارے پاس اﷲ کا نور یعنی محمد ﷺ آئے۔ (تنویر المقیاس من تفسیر ابن عباس)
تفسیر روح البیان شریف میں اسی آیت کے ما تحت ہے:وقیل المراد بالاول ھو الرسول ا بالثانی القرآن۔
کہا گیا ہے کہ اول یعنی نور سے مراد حضور ﷺ ہیں اور کتاب سے مراد قرآن ہے۔ (تفسیر روح البیان)
اسی روح البیان میں آیت’’سراجاً منیرا‘‘کے تحت فرمایا:ھو الذی جعل اﷲ لہ نوراً فارسلہ الی الخلق۔
اﷲ تعالیٰ نے حضور کو نور بنایا اور خلق کی طرف بھیجا۔ (تفسیر روح البیان)
احادیثِ مبارکہ
احمد اور بیہقی اور حاکم نے صحیح اسناد سے حضرت عرباض ابن ساریہ سے روایت کیا کہ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا: میں رب تعالیٰ کے نزدیک خاتم النبیین ہوچکا تھاحالانکہ ابھی آدم علیہ السلام اپنے خمیر میں جلوہ گر تھے۔ (مشکوۃ)
ترمذی شریف ،امام احمد، حاکم اور بخاری نے اپنی تاریخ میں اور ابونعیم نے حلیہ میں حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت کی اور حاکم نے اس روایت کو صحیح کہا کہ ایک بار صحابہ کرام نے پوچھا یارسول اﷲ(ﷺ) آپ کے لئے نبوت کس وقت ثابت ہوئی؟ فرمایا کہ جب آدم علیہ السلام ابھی روح اور جسم کے درمیان تھے۔ (سنن الترمذی، دلائل النبوۃ لابی نعیم)
حضرت عباس(رضی اللہ تعالیٰ عنہ)نے بارگاہ نبوت میں عرض کیا کہ مجھے کچھ نعت شریف پڑھنے کی اجازت دیجئے۔ سرکار(ﷺ) نے فرمایا ہاں پڑھو تو انہوں نے ایک نعتیہ قصیدہ پڑھا جس میں دو شعر یہ بھی تھے۔
وانت لما ولدت اشرقت الارض وضاء ت بنورک الافق
جب آپ پیدا ہوئے تو آپ کے نور سے زمین اور کنارہ آسمان چمک گئے
فنحن فی ذالک الضیاء وفی النور سبیل الرشاد تحترق
تو ہم اسی نور اور روشنی میں ہیں اور اس سے ہدایت کے راستے طے کررہے ہیں
(المعجم الکبیر،مستدرک للحاکم،حلیۃ الاولیاء)
مواہب لدنیہ شریف میں ہے کہ امام ابوسعید نیشاپوری نے کعب الاحبار سے روایت کی کہ جب نور محمدی عبدالمطلب رضی اﷲ عنہ کو ملا تو ان کے جسم سے مشک کی خوشبو آتی تھی اور نور محمدی ان کی پیشانی سے چمکتا تھا۔ حضرت عبدالمطلب اس وقت ایسے مقبول الدعا تھے کہ مکہ والے ان کو سامنے رکھ کر بارش کی دعا کرتے تو فوراً بارش آتی تھی۔ اس نور کی وجہ سے ابرہہ کے ہاتھیوں نے عبدالمطلب کو سجدہ کیا۔ (مواہب لدنیہ ،دلائل النبوۃ لابی نعیم)
ابونعیم نے عبداﷲ ابن عباس رضی اﷲ عنہما سے روایت کیا کہ شب ولادت آمنہ خاتون نے پیدائش پاک کے وقت ایسا نور محمدی دیکھا کہ مشرق و مغرب ان پر ظاہر ہوگئے پھر حضور پیدا ہوئے۔ اور پیدا ہوتے ہی سجدہ فرمایا۔(مواہب لدنیہ ،دلائل النبوۃ لابی نعیم)
امام محمد بن سعد متوفی ۲۳۰ھ؁ لکھتے ہیں: لما فصل منی خرج معہ نور اضاء لہ ما بین المشرق الی المغرب۔
جب سرورکائنات ﷺ کا ظہور ہوا تو ساتھ ہی ایسا نور نکلا جس سے مشرق تا غرب سب آفاق روشن ہوگئے۔
(طبقات ابن سعد،المعجم الکبیر،صفوۃ الصفوۃ لابن جوزی)
حکیم ترمذی نے اپنی کتاب نوادر الاصول میں حضرت ذکوان رضی اﷲ عنہ سے روایت کی:عن ذکوان ان رسول اﷲ ﷺ لم یکن یرالہ ظل فی شمس ولا قمر۔
روایت ہے حضرت ذکوان رضی اﷲ عنہ سے کہ حضور ﷺ کا سایہ نہ دھوپ میں نہ نظر آتا تھا نہ چاند میں۔ (خصائص الکبری)
سیّدنا عبداﷲ ابن مبارک اور حافظ علامہ ابن جوزی حضرت عبداﷲ ابن عباس سے روایت کرتے ہیں:
قال لم یکن لرسول اﷲ ا ظل ولم یقم مع شمس الا غلبہ ضرئہ ضوئھا ولا مع السراج الا ضرئہ ضرئہ۔
یعنی فرمایا کہ نبی ﷺ کا سایہ نہ تھا اور نہ کھڑے ہوتے آپ آفتاب کے سامنے مگر آپ کا نور آفتاب کے نور پر غالب آجاتا اور نہ کھڑے ہوتے آپ چراغ کے سامنے مگر آپ کا نور چراغ کے نور کو دیا لیتا۔ (الوفاء باحوال المصطفی ﷺ)

Menu