Azmat E Mustafa

میلاد شریف

جب رسول اﷲﷺ سے پیر کے دن روزہ رکھنے کے متعلق دریافت کیا گیا تو آپﷺ نے بدیں الفاظ اپنی ولادت ویومِ ولادت کی اہمیت واضح فرمائی کہ
فِيهِ وُلِدْتُ وَفِيهِ أُنْزِلَ عَلَيَّ۔(صحیح مسلم)
اسی دن میری ولادت ہوئی اور اُسی دن مجھ پر قرآن کا نزول ہوا۔
بروایت صحیح مروی ہے:
سئل رسول اﷲﷺ من صوم یوم الاثنین فقال فیہ ولدت وفیہ انزل علی ۔ (صحیح مسلم)
یعنی حضورﷺ دوشنبہ کو روزہ رکھتے تھے ۔اس کی وجہ دریافت کی تو فرمایا اسی دن میری ولادت ہوئی اور اسی روز مجھ پر قرآن نازل کیا گیا۔
علامہ ابو جعفر محمد بن جریر الطبری رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں: اور حضورﷺ کی ولادت اس سال میں جس سال ابرہہ بادشاہ لشکر وہاتھی لے کر کعبۃ اﷲ شریف پر حملہ آور ہوکر آیا تھا اور وہیں ہلاک ہوگیا تھا بروزِ پیر بارہ ربیع الاول کو ہوئی۔ (تاریخ طبری)
حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی رحمۃ اﷲ علیہ نے فرمایا کہ
ربیع الاول شریف کی برکت نبیﷺ کی میلاد شریف سے ہے جتنا اُمت کی طرف سے سرکار کی بارگاہ میں درودوں اور طعاموں کا ہدیہ پیش کیا جاتاہے اتنا ہی اُمت پر آپ کی برکتوں کا نزول ہوتاہے ۔(فتاویٰ عزیزی)
مشرب فقیر کا یہ ہے کہ محفل مولد میں شریک ہوتاہوں بلکہ ذریعہ برکات سمجھ کر ہر سال منعقد کرتاہوں اور قیام میں لطف و لذت پاتاہوں۔(فیصلہ ہفت مسئلہ)
حضورﷺ کی ولادت کے مہینے میں اہل اسلام ہمیشہ سے میلاد کی محفلیں منعقد کرتے چلے آئے ہیں اور خوشی کے ساتھ کھانے پکاتے اور دعوتیں کرتے اور ان راتوں میں قسم قسم کے صدقے وخیرات کرتے اور خوشی و مسرت کا اظہار کرتے اور نیک کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے اور آپﷺ کے میلاد شریف کے پڑھنے کا خاص اہتمام کرتے رہتے ہیں ۔ چنانچہ ان پر اﷲ کے فضل عمیم اور برکتوں کا ظہور ہوتاہے اور میلاد شریف کے خواص میں سے آزمایا گیا ہے کہ جس سال میلاد شریف پڑھا جاتاہے وہ سال مسلمانوں کے لئے حفظ و امان کا سال ہوجاتاہے اورمیلاد شریف کرنے سے دلی مرادیں پوری ہوتی ہیں۔ اﷲ تعالیٰ اس شخص پر بہت رحمتیں نازل فرمائے جس نے میلاد کی مبارک راتوں کو خوشی و مسرت کی عیدیں بنا لیا تاکہ یہ میلاد مبارک کی عیدیں سخت ترین علت و مصیبت ہوجائے اس پر جس کے دل میں مرض و عنادہے۔(زرقانی علی المواہب)
مولوی رشید احمد گنگوہی لکھتا ہے عقد مجلس مولود اگر چہ اس میں کوئی امر غیر مشروع نہ ہو مگر اہتمام وتداعی اس میں بھی موجود ہے لہٰذا اس زمانہ میں درست نہیں۔(فتاویٰ رشیدیہ)
شارح بخاری امام احمد قسطلانی قدس سرہ نے لکھا ہے: اور مشہور یہ ہے کہ حضورﷺ سوموار اور ۱۲ ربیع الاول کو پیدا ہوئے اور یہی قول محمد بن اسحاق و دیگر علماء نے فرمایا اور اسی پر اہل مکہ کا قدیماً و حدیثاً عمل ہے کہ وہ آج تک اسی تاریخ کو آپ کے پیدا ہونے کی جگہ کی (خصوصیت سے)زیارت کرتے ہیں۔ (زرقانی علی المواہب)

نور کے لغوی معنی ہیں روشنی

نور کے لغوی معنی ہیں روشنی۔ چمک دمک اور اجالامگر کبھی اس کو بھی نور کہہ دیا جاتا ہے جس سے روشنی اور اجالا نمودار ہو۔ اس معنی میں سورج کو نور کہا جاتا ہے بجلی۔ چراغ۔ لالٹین کو نور یا روشنی کہہ دیتے ہیں یعنی مسبب بول کر سبب مراد لیتے ہیں۔ نور دو طرح کا ہوتا ہے: نورِحسی اور نورِعقلی۔ نورِحسی وہ جو آنکھوں سے دیکھنے میں آئے جیسے دھوپ، چراغ وغیرہ کی روشنی۔ نورِعقلی جس کو آنکھ تو محسوس نہ کرسکے مگر عقل کہے کہ یہ نور ہے،روشنی ہے۔ اس معنی سے اسلام کو،قرآن کو، ہدایت کو،علم کو نور کہا جاتا ہے۔ آیات ملاحظہ ہوں: اﷲ ولی الذین آمنوا یخرجھم من الظلمت الی النور۔ ترجمہ: اﷲ مدد گار ہے مومنوں کا انہیں اندھیروں سے روشنی کی طرف نکالتا ہے۔ اس آیت میں گمراہی کو اندھیری اور ہدایت کو روشنی اور نور فرمایا گیا ہے۔ وانزلنا الیکم نوراً مبیناً۔ ترجمہ: اور ہم نے تمہاری طرف کھلی روشنی اتاری۔ اس آیت میں قرآن کو نور فرمایا گیا۔ مثل نورہ کمشکوۃ فیھا مصباح۔ (پارہ ۱۸ سورہ ۲۴ آیت نمبر ۳۵) ترجمہ: رب کے نور کی مثال اس طاق کی طرح سے جس میں چراغ ہو۔ اس آیت میں رب نے اپنی ذات کو یا اپنے حبیب ﷺ کو نور فرمایا: ومن کان میتا فاحییناہ وجعلنا لہ نوراً یمشی بہ فی الناس۔ ترجمہ: تو کیا وہ جو مردہ تھا۔ پھر ہم نے اسے زندگی بخشی اور اس کے لیے نور بنایا جس سے وہ لوگوں میں چلتا ہے۔ افمن شرح اﷲ صدرہ للاسلام فھو علی نور من ربہ۔ ترجمہ: تو کیا وہ شخص جس کا سینہ ہم نے اسلام کے لئے کھول دیا ہے پس وہ اپنے رب کی طرف سے نور پر ہے۔ ربنا اتمم لنا نورنا واغفرلنا۔ ترجمہ: اے رب ہمارے ہمارا نور پورا فرما اور ہماری مغفرت فرما۔ وانزلنا التورٰۃ فیہ ھدی ونور۔ ترجمہ: اور ہم نے توریت اتاری جس میں ہدایت اور نور ہے۔ رب تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: قد جآء کم من اﷲ نور و کتاب مبین۔ (سورہ مائدہ پارہ ۶ آیت نمبر ۱۵) ترجمہ: بے شک تمہارے پاس اﷲ کی طرف سے نور آیا اور روشن کتاب۔ مثل نورہ کمشکوۃ فیھا مصباح المصباح کالزجاجۃ والزجاجۃ کانھا کوکب دری۔ ترجمہ: رب کے نور یعنی (محمدﷺ) کی مثال ایسی ہے جیسے ایک طاق جس میں چراغ ہے۔ وہ چراغ ایک فانوس میں ہے وہ چراغ ایک فانوس میں ہے وہ فانوس گویا ایک چمکتا ہو اتارا ہے۔(پارہ ۱۸ سورہ ۲۴ آیت نمبر ۳۵) یا ایھا النبی انا ارسلنک شاھداً ومبشراً ونذیراً و داعیاً الی اﷲ باذنہ وسراجاً منیراً۔ ترجمہ: اے نبی! بے شک ہم نے تم کو بھیجا حاضر ناظر اور خوشخبری دیتا اور ڈرسناتا اور اﷲ کی طرف اس کے حکم سے بلانے والا اور چمکانے والا سورج۔ (سورہ الاحزاب پارہ ۲۲ آیت نمبر ۴۶) یریدون لیطفؤا نور اﷲ بافواھھم واﷲ متم نورہ ولو کرہ الکافرون۔ ترجمہ: کفار چاہتے ہیں کہ اﷲ کے نور (بنی ﷺ) کو بجھادیں اور اﷲ اپنے نور کو پورا فرمانے والا ہے۔ اگرچہ کفار ناپسند کریں۔ (سورہ صف پارہ ۲۸) یریدون ان یطفؤا نور اﷲ بافواھم ویابی اﷲ ان یتم نورہ۔ ترجمہ: کفار یہ چاہتے ہیں کہ اﷲ کے نور (محمد ﷺ) کو اپنے منہ سے بجھادیں اور اﷲ نہ مانے گا مگر اپنے نور کا پورا کرنا۔ (سورہ توبہ پارہ ۱۰) تفسیر جلالین شریف میں” قدجآء کم من اﷲ نور و کتاب مبین‘‘ کے تحت فرمایا: ھو نور النبی (تفسیر جلالین) نور سے مراد نور محمد ﷺ۔ تفسیر صاوی شریف میں اس آیت کے ما تحت ہے:قولہ ھو النبی ای سمی نور لانہ ینور البصائر ویھدیھا الرشاد ولانہ اصل کل نور حسی ومعنوی۔ (تفسیر صاوی حاشیہ جلالین) رب نے اس آیت میں حضورﷺ کو نور اس لئے فرمایا کہ حضورﷺ بصارتوں کو نورانی کرتے ہیں اور کامیابی کی طرف ہدایت دیتے ہیں اور حضورﷺ ہر حسی اور معنوی نور کی اصل ہیں۔ تفسیر خازن میں اسی آیت کے ماتحت ہے:قد جاء کم من اﷲ نور یعنی محمد ا انما سماہ اﷲ نوراً لانہ یھتدی بہ کما یھتدی فی الظلام بالنور۔ یعنی اس آیت میں نور محمد ﷺ ہیں رب نے انہیں نور اس لئے فرمایا کہ حضور سے ہدایت حاصل کی جاتی ہے جیسے کہ اندھیری میں نور سے ہدایت لی جاتی ہے۔ (تفسیر خازن) تفسیر بیضاوی میں اس آیت کے ما تحت ہے:وقیل یرید بالنور محمد ا۔ مفسرین کا ایک قول یہ بھی ہے کہ یہاں نور سے مراد محمد ﷺ ہیں۔ (تفسیر بیضاوی) تفسیر مدارک میں اسی آیت کے ما تحت ہے:او النور محمد ا لانہ یھتدی بہ کما سمی سراجا۔ (تفسیر مدارک التنزیل) نور سے مراد محمد مصطفی ﷺ ہیں اس لیے کہ حضور سے ہدایت ملتی ہے جیسے کہ رب نے انہیں سورج فرمایا۔ تفسیر ابن عباس تنویر المقیاس میں اسی آیت کے ما تحت ہے:قد جاء کم من اﷲ نور رسول اﷲ یعنی محمد۔ بے شک تمہارے پاس اﷲ کا نور یعنی محمد ﷺ آئے۔ (تنویر المقیاس من تفسیر ابن عباس) تفسیر روح البیان شریف میں اسی آیت کے ما تحت ہے:وقیل المراد بالاول ھو الرسول ا بالثانی القرآن۔ کہا گیا ہے کہ اول یعنی نور سے مراد حضور ﷺ ہیں اور کتاب سے مراد قرآن ہے۔ (تفسیر روح البیان) اسی روح البیان میں آیت’’سراجاً منیرا‘‘کے تحت فرمایا:ھو الذی جعل اﷲ لہ نوراً فارسلہ الی الخلق۔ اﷲ تعالیٰ نے حضور کو نور بنایا اور خلق کی طرف بھیجا۔ (تفسیر روح البیان) احادیثِ مبارکہ احمد اور بیہقی اور حاکم نے صحیح اسناد سے حضرت عرباض ابن ساریہ سے روایت کیا کہ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا: میں رب تعالیٰ کے نزدیک خاتم النبیین ہوچکا تھاحالانکہ ابھی آدم علیہ السلام اپنے خمیر میں جلوہ گر تھے۔ (مشکوۃ) ترمذی شریف ،امام احمد، حاکم اور بخاری نے اپنی تاریخ میں اور ابونعیم نے حلیہ میں حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت کی اور حاکم نے اس روایت کو صحیح کہا کہ ایک بار صحابہ کرام نے پوچھا یارسول اﷲ(ﷺ) آپ کے لئے نبوت کس وقت ثابت ہوئی؟ فرمایا کہ جب آدم علیہ السلام ابھی روح اور جسم کے درمیان تھے۔ (سنن الترمذی، دلائل النبوۃ لابی نعیم) حضرت عباس(رضی اللہ تعالیٰ عنہ)نے بارگاہ نبوت میں عرض کیا کہ مجھے کچھ نعت شریف پڑھنے کی اجازت دیجئے۔ سرکار(ﷺ) نے فرمایا ہاں پڑھو تو انہوں نے ایک نعتیہ قصیدہ پڑھا جس میں دو شعر یہ بھی تھے۔ وانت لما ولدت اشرقت الارض وضاء ت بنورک الافق جب آپ پیدا ہوئے تو آپ کے نور سے زمین اور کنارہ آسمان چمک گئے فنحن فی ذالک الضیاء وفی النور سبیل الرشاد تحترق تو ہم اسی نور اور روشنی میں ہیں اور اس سے ہدایت کے راستے طے کررہے ہیں (المعجم الکبیر،مستدرک للحاکم،حلیۃ الاولیاء) مواہب لدنیہ شریف میں ہے کہ امام ابوسعید نیشاپوری نے کعب الاحبار سے روایت کی کہ جب نور محمدی عبدالمطلب رضی اﷲ عنہ کو ملا تو ان کے جسم سے مشک کی خوشبو آتی تھی اور نور محمدی ان کی پیشانی سے چمکتا تھا۔ حضرت عبدالمطلب اس وقت ایسے مقبول الدعا تھے کہ مکہ والے ان کو سامنے رکھ کر بارش کی دعا کرتے تو فوراً بارش آتی تھی۔ اس نور کی وجہ سے ابرہہ کے ہاتھیوں نے عبدالمطلب کو سجدہ کیا۔ (مواہب لدنیہ ،دلائل النبوۃ لابی نعیم) ابونعیم نے عبداﷲ ابن عباس رضی اﷲ عنہما سے روایت کیا کہ شب ولادت آمنہ خاتون نے پیدائش پاک کے وقت ایسا نور محمدی دیکھا کہ مشرق و مغرب ان پر ظاہر ہوگئے پھر حضور پیدا ہوئے۔ اور پیدا ہوتے ہی سجدہ فرمایا۔(مواہب لدنیہ ،دلائل النبوۃ لابی نعیم) امام محمد بن سعد متوفی ۲۳۰ھ؁ لکھتے ہیں: لما فصل منی خرج معہ نور اضاء لہ ما بین المشرق الی المغرب۔ جب سرورکائنات ﷺ کا ظہور ہوا تو ساتھ ہی ایسا نور نکلا جس سے مشرق تا غرب سب آفاق روشن ہوگئے۔ (طبقات ابن سعد،المعجم الکبیر،صفوۃ الصفوۃ لابن جوزی) حکیم ترمذی نے اپنی کتاب نوادر الاصول میں حضرت ذکوان رضی اﷲ عنہ سے روایت کی:عن ذکوان ان رسول اﷲ ﷺ لم یکن یرالہ ظل فی شمس ولا قمر۔ روایت ہے حضرت ذکوان رضی اﷲ عنہ سے کہ حضور ﷺ کا سایہ نہ دھوپ میں نہ نظر آتا تھا نہ چاند میں۔ (خصائص الکبری) سیّدنا عبداﷲ ابن مبارک اور حافظ علامہ ابن جوزی حضرت عبداﷲ ابن عباس سے روایت کرتے ہیں: قال لم یکن لرسول اﷲ ا ظل ولم یقم مع شمس الا غلبہ ضرئہ ضوئھا ولا مع السراج الا ضرئہ ضرئہ۔ یعنی فرمایا کہ نبی ﷺ کا سایہ نہ تھا اور نہ کھڑے ہوتے آپ آفتاب کے سامنے مگر آپ کا نور آفتاب کے نور پر غالب آجاتا اور نہ کھڑے ہوتے آپ چراغ کے سامنے مگر آپ کا نور چراغ کے نور کو دیا لیتا۔ (الوفاء باحوال المصطفی ﷺ)

شق القمر

قریب آئی قیامت اور شق ہو گیا ( پھٹ گیا)چاند اور اگر وہ دیکھیں کوئی نشانی تو منہ پھیر تے اور کہتے ہیں یہ تو جادو ہے چلا آتا اور انہوں نے جھٹلا یا اور اپنی خواہشوں کے پیچھے ہوئے اور ہر کام قرار پاچکا ہے۔(القمر:۵۴/۱تا۳) امام بن جریر طبری علیہ الرحمۃ متو فی ۳۱۰ ؁ھ اپنی معرکۃ الآراء تفسیر جامع البیان میں آیت کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ :بے شک کفا رِ اہلِ مکّہ نے حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے کوئی معجزہ طلب کیا تو آپ نے انہیں اپنے دعوی ٔرسالت کی سچائی اور اپنی نبوت کے حق ہو نے پر بطورِ حجت چاند کو دو ٹکڑ ے کر دکھلایا ۔ امام ابو عبد اللہ بن احمد الا نصاری القر طبی علیہ الرحمۃ متوفی ۶۷۱ھ اپنی تفسیر الجامع الا حکام القرآن میں لکھتے ہیں کہ ’’ عادل اور ثقہ آحادر اویوں کی نقل و روایت سے ثابت ہے کہ چاند مکّہ میں دو ٹکڑے ہوا اورظاہر قرآن سے یہی معلوم ہوتا ہے یہ ایک ایسا معجزہ تھا جو رات کو ظاہر ہوا اور ضروری نہیں کہ اسے اس خطۂ زمین کے سب لوگ دیکھتے ( بلکہ اس قدر کافی تھا کہ اسے وہ لوگ دیکھیں جنہوں نے معجزہ طلب کیایا ان کے علاوہ کچھ دوسرے لوگ )اور یہ معجزہ یوں ظاہر ہوا کہ کفار مکّہ نے کہا کہ اگر آپ نبی ہیں تو معجزہ دکھائیں تو آپ نے اس وقت اللہ تعالیٰ سے دعا فرمائی مروی ہے کہ جب حضرت حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ ابو جہل کے رسول اللہ ﷺ کوگالیاں بکنے کی وجہ سے غضبناک ہوکر اسلام لائے تو انہوں نے حضورﷺ سے سوال کیا آ پ انہیں کوئی معجزہ دکھا ئیں جس سے ان کی ایمان و یقین میں ترقی ہو اور صحیح حدیث سے بھی گزرا کہ اہل مکّہ نے بھی آپ سے معجزہ طلب کیا تو آپ نے انہیں چاند دو ٹکڑے کر کے دکھادیا جیسا کہ حضرت عبداللہ بن مسعود وغیرہ کی حدیث میں ہے اور حضرت حذیفہ سے مروی ہے کہ انہوں نے مدائن میں خطبہ دیا پھر فرمایا’’سنو ! بلا شبہ قیامت قریب آگئی اور چاند تمہارے نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں دو ٹکڑے ہوا‘‘ امام فخر الدین رازی علیہ الرحمۃ متوفی ۶۰۶؁ ھ اپنی تفسیر میں اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے شق القمر کو حضورﷺ کا عظیم الشان معجزہ قرار دیتے ہیں اور فرماتے ہیں آپ نے یہ معجزہ مشرکین کے مطالبہ پر ظاہر فرمایا اور اس سلسلے میں متعلقہ و ممکنہ سوال و جواب کرنے کے بعد فرماتے ہیں کہ : کچھ کمزور ذہن والے لوگ اس کے منکر ہیں ۔ ( تفسیر کبیر) منکرین معجزہ شق القمرکے نزدیک ابن کثیر ایک برگزیدہ مفسر و مؤرخ ہے اس کی بھی سنئے اس نے لکھا کہ :یہ شق القمر رسول اللہﷺ کے زمانۂ اقدس میں تھا جیسا کہ اسنادِ صحیحہ کے ساتھ متواتر حدیثوں میں وارد ہو ا اور یہ علماء کے درمیان متفق علیہ ہے یعنی چاند کا شق ہونا نبی کریمﷺکے روشن معجزوں میں سے ایک معجزہ ہے۔ ( تفسیر ابن کثیر) امام بیہقی متوقی ۴۵۸؁ھ اپنی کتاب ’’دلائل النبوّۃ‘‘ اور امام حاکم نے مستد رک شریف میں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث سند کے ساتھ روایت فرماتے ہیں انہوں نے فرمایا :یعنی میں نے مکّہ میں چاند کو دوبارہ دو ٹکڑوں میں پھٹا ہوا دیکھا۔(دلائل النبوّۃ،مستدرک) امام ابو نعیم دلائل النبوۃ میں اپنی سند سے لائے ہیں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ چاند عہد مصطفی ﷺ میں شق ہوا تو قریش نے کہا یہ ابن ابی کبشہ کا جادوہے اس نے تم پر جادو کر دیا ہے تو بعض نے کہا کہ اس کو دیکھو جو مسافر تمہارے پاس خبر لائیں کیو نکہ محمد سب لوگوں پر جادو نہیں کر سکتے ،کہتے ہیں کہ مسافر آئے تو کہنے لگے اسی طرح ہے ‘‘( دلائل النبوّۃ) طبری اور ان کے شاگرد رشید امام واحدی سندکے ساتھ روایت کرتے ہیں: حضرت مسروق حضرت عبداللہ بن مسعود سے روایت کرتے ہیں انہوں نے فرمایا کہ حضور ﷺکے زمانۂ اقدس میں چاندشق ہوا قریش نے کہا کہ یہ ابن ابی کبشہ کا جادو ہے اس نے تم پر جادو کر دیا پس تم مسافروں سے پوچھوپس انہوں نے ان سے پوچھا تو مسافروں نے کہا ہاں بیشک ہم نے دیکھا تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی قیامت قریب آگئی اور چاند دو ٹکڑے ہو گیا۔( تفسیر ابن جریر،اسباب النزول) امام بدر الدین عینی متوفی ۸۵۵ھ شرح بخاری میں فرماتے ہیں: چاند کا حضورﷺکے زمانہ میں شق ہونا آپ کا معجزہ کے طور پر ہوا اور یہ آپ کے عظیم الشان معجزات میں سے ہے اور آپ کی ان روشن نشانیوں میں سے ہیں جو آپ کے ساتھ مخصوص کی گئیں کیونکہ باقی پیغمبر وں کے معجزات زمین سے تجاوز نہ کر سکے ( لیکن حضورﷺ کا یہ معجزہ زمین سے آسمان کی طرف تجاوز کر گیا )اور قرآن یہی کہتا ہے قیامت قریب آگئی اور چاند شق ہو گیا ۔(عمدۃ القاری شرح البخاری) شرح صحیح مسلم میں ہے کہ :چاند کا دو ٹکڑے ہونا ہمارے نبیﷺکے بڑے معجزات میں سے ہے اور اسے متعد د صحابہ نے روایت کیا آیت کریمہ کے ظاہر اور اس کے سیاق کے باوجود اور امام زجاج فرماتے ہیں کہ بعض گمراہوں ملت کے مخالفین ایسے لوگ اس کے منکر ہوئے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان کے دل کو اندھا کر دیا اور اس میں عقل کے لیے انکار کی کوئی گنجائش نہیں کیونکہ چاند اللہ کی مخلوق ہے اور وہ اس میں جو چاہے کرے جیسا کہ وہ اسے فنااور بے نور کر کے لپیٹ دے گا اس کے آخر امر ہے ۔( شرح صحیح مسلم) امام زرقانی رحمہ اللہ تعالیٰ نے میں لکھا کہ:یہ حدیث یعنی شق القمر کو صحابہ کی بہت بڑی جماعت نے روایت کیا ہے ان سے ان جیسے تا بعین کثیر التعداد نے روایات کی ایسے ہی ہمارے ہاں ایک جم غفیر ( جماعت کثیر ) کے ذریعے منقول کر پہنچی ۔(شرح مواھب اللدنیہ)

Al Quran

Media Library

Books Library

Personalities

Muqaddas Maqamaat

Madrassa-tul-Mustafa

Gallery

Fatwa

Sister Corner

New Books

Menu